اِسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ Ú©Ùˆ صبØ+ِ قیامت سے پیشتر دیکھوں

اِس اک چراغ کی لَو چُبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں

مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتماد نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں

صدائے غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
میرا وجود ہے پتھر جو لوٹ کر دیکھوں

نظر عذاب ہے پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں

جُدا سہی میری منزل بچھڑ نہیں سکتا!
میں کس طرØ+ تجھے اوروں کا ہم سفر دیکھوں

وہ لب فراز اگر کر سکیں مسیØ+ائی
بقولِ درد میں سو سو طرØ+ سے مر دیکھوں

اØ+مد فراز